Wednesday, December 21, 2011

Untitled.

Where am I? 


What is this place? 


How did I get here?


I can hardly keep my eyes open, the lights are too bright, I can hear the air conditioner running on full blast, that should explain the goosebumps on my arms. 


What's that smell? Smell's like the balm I use when my nose is blocked. 


My cheeks hurt, hmm cracked skin, have I been crying? My eyes are strained too, I probably was, but why? 


Dad's on my right, he looks sad, why is he looking at me like that? My brother's on my left, but he's not looking at me, What's he looking at? 


Mom? Why are you lying there? Get up! 


Maa please, it's getting dark.

Saturday, December 10, 2011

آسماں کی حماقت۔

An Original Piece, my attempt at urdu poetry. Please read and comment. 

آنکھیں موندے شام کو لیٹا میں سونے 
سوچا کےدو گھڑی آرام کر لوں میں 

چلتا رہا ذہن اپنے آپ کیا کاروں؟
گھڑیوں نے بھی پکڑی رفتار کیا کروں؟

سب چھوٹا تو نیند کی پریوں نے دستک دی،
بولیں کے رات آن کو ہے، اب سو بھی جا تو!

اب جاگا جو میں نیند سے حقیقت کچھ اور تھی
سویا جہاں تھا میں، وہ خاک نا تھی یہ

سورج چمک رہا تھا شفق لال تھی وہاں
ہیرت بھری نگاھوں سے میں دیکھ رہا تھا

اتنے میں اچانک ایک ٹھوکر مجھے لگی
دیکھا جو مڑ کر میں نے اک ضعیف تھا کھڑا

آنکھوں میں اس کے خوف تھا ماتھے پہ تھیں شکن
آنکھوں میں میری دیکھ کر اس نے بات کی شروع

کہنے لگا، "میاں یہاں کام کیا ترا؟
اندھیرا آرہا ہے ترا چراغ ہے کہاں؟

بھاگو یہاں سے یہ تاریکی ہے ٖطویل
نہ ختم ہونے والی رات آئی ہے

سورج جو دوست تھا، روٹھ گیا ہے
فلک نے چاند سے جو دل لگی ہے کی"

کرا سوال میں نے کہ،" کیا کہا جناب؟
آسماں کو کیا چاند کی حقیقت نہیں پتا؟

آتا ہے ایک بار مہینے میں وہ نظر
ورنہ جھلک دکھا کے تڑپاتا ہے ہمیں

سورج ہے اصل دوست جو نہ چھوڑے اپنا ساتھ
رہتا وہیں پر ہے چاہے دنیا پلٹ لے منہ

چاند کی چمک ہے ادھاری کی روشنی
آفتاب نہ ہو سخی تو پھر چاند ہو کہاں؟"

بولا بزرگ چیخ کر، "احمق ہے آسماں،
چار روزہ چاندنی پہ ہادی بھلا دیا۔"

آئی آوازِ غیب کہ،"احمق نہیں ہوں میں،
جلتا ہوں ہر پہر، سورج کی آگ تلے میں!

چاندنی نے مجھ کو ہے آگوش میں لیا،
ٹھندک نے اس کی مجھ کو سیراب ہے کیا۔"

سرخ آندھیوں نے افق پر گھیرا بنا لیا،
روشن خواب دکھا کے گھمرا اسے کیا۔

اتنے میں ہے سورج نے الوداع کہا،
پلک جھپکتے ہم سے رخصت وہ ہو گیا۔

ڈوبتے سورج کو دیکھ مرا دل بھی ہے ڈوبا
اب آنکھوں نے میری صبر کا دامن چھڑا لیا

روتا رہا اندھیر میں کہ عجب رات آئی ہے
جانے خدا کہ کب ہو اب روشن یہ گلستاں؟

کہنے لگا آسماں،"گھبراوُ نہیں تم
آئے گا چاند، میرا محبوب جو ہے وہ۔"

گھنٹے گزر گےُ نہ آیا کچھ نظر مجھے
پوچھا اس سے میں نے کہاں ہے یہ چاند اب؟

بولا کوئی کہ "پاس ہی تیرے کھڑا ہوں میں
لیکن جانے کہاں روٹھ کے بیٹھی ہے مہتاب؟"

کہنے لگا ضعیف کہ مغرور تھا آسماں
اپنے ساتھ تجھ کو بھی ویران کر گیا۔

برس پڑا اب آسماں پھر آندھیاں چلی
گش کھا کے وہیں خاک پر میں سو گیا

ٹوٹا جب یہ خواب مسکرا رہا تھا میں
شاید آسماں کی قصمت پہ ہنس پڑا

سوچا پھر یہ میں نے کہ پروا نہیں مجھے
سمجھا نہیں جو تو، تو میں کیا کروں؟

محمد حسن خوجہ