Sunday, August 14, 2011

آزاد پاکستان؟


کہتے ہیں آج پاکستان بنا تھا۔ ہندستان کے مسلمانوں نے آزادی حاصل کی تھی، لیکن کیا ہم سچ میں آزاد ہیں؟ اور اگر ہیں تو کیا ہم نے اس آزادی کا صحیح استعمال کیا ہے؟ اور کیا ہم نے ان قربانیوں کا حق ادا کیا ہے؟
یہ وہ سوال ہیں جو میں سمجھتا ہوں آج ہر پاکستانی کو اپنے زمیر سے پوچھنے چاہیے۔
ہر ترف افرا تفری پھیلی ہوی ہے، بھایٔ بھایٔ کا دشمن ہو گیا ہے اور جان و مال کا تحفض اب کنابی باتیں لگتی ہیں۔ ہر انسان یاں تو خود مجبور اور لاچار ہے یاں پھر کسی اور کا جینا محال کر رہا ہے، بیبسی کا آلم یہ ہے کہ مایٔں اپنی گودیاں اجاڑ کر خود کو ختم کر رہیں ہیں لیکن ہم آج بھی اس غلط فہمی میں جی رہے ہیں کے ہم آزاد ہیں۔ سب کی سوچوں پر تالا لگا ہوا ہے، اور ہم اب بھی، رنگ، نسل، زبان، سیاسی تعلقات، مزہب اور معاشی حالات میں اٹکے ہوے ہیں۔ 
یہ مٹؔی خون کے آنسوں رو رہی ہے، اور ساری خدائ ہم سے ناراض ہے، ایک درندا زرد آری لیے اس ملک کو پاش پاش کر رہا ہےاور ہم ہاتھوں میں ہاتھ لیے ان سیاہ آندھیوں کے ٹلنے کا انتظار کر رہے ہیں، یاد رہے، خدا ان قوموں کی مدد نہیں کرتا جو آپ اپنی مدد نہیں کرتیں۔
زرا سوچو اس وطن نے تمہیں کیا کیا دیا ہے، تم یہاں پہلے درجے کے شہری ہو، تمہیں یہاں مسلمان ہونے پر کوئ شک کی نظر سے نہیں دیکھتا۔ اپنا زہن کھولو، مہنت کو بےایمانی کے اپر ترجیح دو اور اپنا کام کرتے رہو تاقہ جب اپنے رب کے پاس لوٹوں تو اسے جواب دے سکو۔ میں یہ ہرگز نہیں کہتا کہ میں ایک بہترین انسان ہوں، کیوںکہ میں نہیں ہوں، لیکن میں کوشش کرنے کا حامل ہوں۔ 
جاتے جاتے بس یہ کہوں گا کہ تعلیم کو عام کرو اور پھر دیکھو یہ ملک کیسے آگے بڑھتا ہے۔

 

روح ارضی آدم کا اسِتقبال کرتی ہے  

 علامہ محمد اقبال

کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ               مشرق سے ابھرتے ہوے سورج کو ذرا دیکھ 

اس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ                     ایّامِ جُدائی کے ستم دیکھ، جفا دیکھ

بے تاب نہ ہو، معرکۂ بیم و رجا دیکھ 


ہیں تیرے تصرّف میں یہ بادل، یہ گھٹائیں                        یہ گنبدِ افلاک، یہ خاموش فضائیں

 یہ کوہ، یہ صحرا، یہ سمندر، یہ ہوائیں                      تھیں پیشِ نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں 

آئینۂ ایّام میں آج اپنی ادا دیکھ
  

سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے               دیکھیں گے تجھے دُور سے گردوں کے ستارے

ناپید ترے بحرِ تخیّل کے کنارے                             پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے 

تعمیرِ خودی کر، اثر اہِ رسا دیکھ 


خورشیدِ جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں                       آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں 

جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں                       جنّت تری پنہاں ہے ترے خونِ جگر میں 

اے پیکرِ گِل کوششِ پہیم کی جزا دیکھ


نالندہ ترے عُود کا ہر تار ازل سے                               تو جنسِ محبّت کا خریدار ازل سے

یو پیرِ صنم خانۂ اسرار ازل سے                            محنت کش و خونریز و کم آزار ازل سے 

ہے راکبِ تقدیر جہاں تیری رضا دیکھ

2 comments:

  1. Sadly, I too believe that our nation is far from "aazad". How are people to go about achieving freedom when they haven't the slightest sense of solidarity or even the will to change. It's honestly heartbreaking to watch the helpless masses die as the country is left in the hands of parasites.
    Hassan, I dont think I've said this enough - you're amazing at what you do.

    ReplyDelete
  2. Thanks mushi, I am glad you like it.

    ReplyDelete